سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود ؓ خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود فرماتے ہیں:۔
غزوہ حنین کے موقعہ پر جب دشمن دائیں بائیں کے ٹیلوں پر چڑھ کر تِیربرسا رہا تھا اور مکہ کے نو مسلموں کے بھاگ جانے کی وجہ سے صحابہ کے پائوں بھی اُکھڑ گئے تھے ۔آپؐ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اکیلے کافروں کے دوردیہ لشکروں میں گھس گئے ۔اُس وقت حضرت ابوبکر ؓ نے آگے بڑھ کر آپؐ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا ۔یا رسول اللہ ؐ مسلمانوں کو لوٹنے دیجئے وہ تھوڑی دیر میں ہی آپؐ کے گرد جمع ہو جائیں گے ۔اس پر آپ ؐ نے حضرت ابو بکر کو سختی سے ہٹا دیا اور فرمایا ،میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو اور گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ :۔
اَنَا انَّبِیُّ لَا کَذِبْ۔۔۔۔۔۔اَ نَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
(بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ ۔و یون حنین اذا اعجبتکم کثرتکم )
کتنا عظیم الشان فرق ہے مسیح علیہ السلام میں اور میرے آ قا میں ۔وہ ساری رات یہ دعا ئیں مانگتا رہا کہ اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیا لہ مجھ سے ٹل جائے متی باب26 آیت 39
مگر پھر بھی اسکو لو گوں نے خدا بنا دیا۔وہ صرف دو گھنٹے صلیب پر لٹکا رہا اور اتنے عرصہ میں ہی خدا تعالیٰ سے شکایت کرنے لگا کہ اے میرے خدا تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ۔ متی باب 27 آیت 47
مگر میرا محمد ﷺ ایسے دشمن کے نرغہ میں گر گیا جو دو طرف پہاڑوں پر چڑا ہو ا تھا اور دونوں طرف سے اس پر تیراندازی کر رہا تھا اور اس کے ساتھی ایک فریب میں آکر بھاگ گئے تھے مگر پھر بھی وہ اپنے خدا سے مایوس نہیں ہوا اور پھر بھی اُس نے یہی کہامیں انسان ہوں خدا نہیں
کسیی اندھی ہے وہ دنیا جو ان واقعات کے بعد بھی مسیح ؑ کو آسمان پر چڑھاتی ہے اور محمد ﷺ کو زمین میں دفن کرتی ہے ۔اگر آسمان پر کوئی چڑھ سکتا تھا تو محمد ﷺ اور اگر زمین میں دفن ہونے کا کوئی مستحق تھا تو مسیح ؑ ناصری۔مگر یہ طاقت اللہ ہی کو ہے کہ وہ لوگوں کو آنکھیں دے کہ وہ ہر ایک کا مقام پہچانیں ۔
(تفسیر کبیر جلد 5صفحہ 422)